سفینہ رکھتا ہوں درکار اک سمندر ہے
ہوائیں کہتی ہیں اس پار اک سمندر ہے
میں ایک لہر ہوں اپنے مکان میں اور پھر
ہجوم کوچہ و بازار اک سمندر ہے
یہ میرا دل ہے مرا آئینہ ہے شہزادی
اور آئینے میں گرفتار اک سمندر ہے
کہاں وہ پیرہن سرخ اور کہاں وہ بدن
کہ عکس ماہ سے بے دار اک سمندر ہے
یہ انتہائے مسرت کا شہر ہے ثروتؔ
یہاں تو ہر در و دیوار اک سمندر ہے

غزل
سفینہ رکھتا ہوں درکار اک سمندر ہے
ثروت حسین