EN हिंदी
سفینہ رکھتا ہوں درکار اک سمندر ہے | شیح شیری
safina rakhta hun darkar ek samundar hai

غزل

سفینہ رکھتا ہوں درکار اک سمندر ہے

ثروت حسین

;

سفینہ رکھتا ہوں درکار اک سمندر ہے
ہوائیں کہتی ہیں اس پار اک سمندر ہے

میں ایک لہر ہوں اپنے مکان میں اور پھر
ہجوم کوچہ و بازار اک سمندر ہے

یہ میرا دل ہے مرا آئینہ ہے شہزادی
اور آئینے میں گرفتار اک سمندر ہے

کہاں وہ پیرہن سرخ اور کہاں وہ بدن
کہ عکس ماہ سے بے دار اک سمندر ہے

یہ انتہائے مسرت کا شہر ہے ثروتؔ
یہاں تو ہر در و دیوار اک سمندر ہے