سفینہ غرق ہوا میرا یوں خموشی سے
کہ سطح آب پہ کوئی حباب تک نہ اٹھا
سمجھ نہ عجز اسے تیرے پردہ دار تھے ہم
ہمارا ہاتھ جو تیرے نقاب تک نہ اٹھا
جھنجھوڑتے رہے گھبرا کے وہ مجھے لیکن
میں اپنی نیند سے یوم حساب تک نہ اٹھا
جتن تو خوب کیے اس نے ٹالنے کے مگر
میں اس کی بزم سے اس کے جواب تک نہ اٹھا

غزل
سفینہ غرق ہوا میرا یوں خموشی سے (ردیف .. ا)
آصف رضا