EN हिंदी
سفر تمام ہوا گرد جستجو بھی گئی | شیح شیری
safar tamam hua gard-e-justuju bhi gai

غزل

سفر تمام ہوا گرد جستجو بھی گئی

خالد جمال

;

سفر تمام ہوا گرد جستجو بھی گئی
تری تلاش میں نکلی تو آرزو بھی گئی

اک انتظار سا تھا برف کے پگھلنے کا
پھر اس کے بعد تو امید آب جو بھی گئی

طلب کی راہ میں ایسے بھی موڑ آئے ہیں
کہ حرف و صوت گیا شوخیٔ گلو بھی گئی

یہ برگ و بار کہاں جاذب نظر ٹھہرے
تمہارے بعد تو پھولوں سے رنگ و بو بھی گئی

کچھ ایسے خاک اڑائی ہے دشت ہو میں جمالؔ
کہ جذب شوق بھی تفریق ما و تو بھی گئی