سفر میں گرد چھٹی راستہ دکھائی دیا
اور اس کے بعد مجھے دوسرا دکھائی دیا
زبان حرف سے محروم ہو گئی ہے مری
بتاؤں کیسے مجھے اور کیا دکھائی دیا
مرے ہی خواب تمنا کی لو میں جلتے رہے
مرا ہی عکس سر آئینہ دکھائی دیا
نکل کے آپ سے باہر دکھائی کچھ نہ دیا
دکھائی کچھ نہ دیا تو خدا دکھائی دیا
بھٹک رہا تھا میں بے سمت رہ گزاروں میں
پھر ایک روز ترا نقش پا دکھائی دیا
غزل
سفر میں گرد چھٹی راستہ دکھائی دیا
سیمان نوید