سفر میں اب کے عجب تجربہ نکل آیا
بھٹک گیا تو نیا راستہ نکل آیا
مرے ہی نام کی تختی لگی تھی جس در پر
وہ جب کھلا تو کسی اور کا نکل آیا
دکھوں کی جھاڑیاں اگتی چلی گئیں دل میں
ہر ایک جھاڑی سے جنگل گھنا نکل آیا
اک اور نام جڑا دشمنوں کے ناموں میں
اک اور دوست مرا آئینہ نکل آیا
کچھ آج اشکوں کی لذت نئی نئی سی ہے
پرانے غم کا نیا ذائقہ نکل آیا
یہ میرا عکس ہے یا اور ہے کوئی مجھ میں
کہ جس کا قد مرے قد سے بڑا نکل آیا
بڑھے کچھ اس طرح دونوں ہی دوستی کی طرف
کہ درمیاں میں نیا فاصلہ نکل آیا
دعا سلام سے آگے جو تھوڑی بات بڑھی
جو اس کا دکھ تھا وہی دکھ مرا نکل آیا
مری غزل میں کسی بے وفا کا ذکر نہ تھا
نہ جانے کیسے ترا تذکرہ نکل آیا

غزل
سفر میں اب کے عجب تجربہ نکل آیا
راجیش ریڈی