EN हिंदी
سفر کہنے کو جاری ہے مگر عزم سفر غائب | شیح شیری
safar kahne ko jari hai magar azm-e-safar ghaeb

غزل

سفر کہنے کو جاری ہے مگر عزم سفر غائب

شایان قریشی

;

سفر کہنے کو جاری ہے مگر عزم سفر غائب
یہ ایسا ہے کہ جیسے گھر سے ہوں دیوار و در غائب

ہزاروں مشکلیں آئیں وفا کی راہ میں مجھ پر
کبھی منزل ہوئی اوجھل کبھی راہ سفر غائب

عجب منظر یہ دیکھا ہے خرد والوں کی بستی میں
یہاں سر تو سلامت تھے مگر فکر و نظر غائب

حسیں موسم نے نظریں پھیر لیں اپنے تغافل پر
ہوئے رفتار دنیا کے سبب شام و سحر غائب

پرندو لوٹ کر آنا ذرا جلدی اڑانوں سے
نہ ہو جائیں کہیں آنگن سے یہ بوڑھے شجر غائب

یہ کس کی سرخئ رخ شام کے چہرے پہ اتری ہے
کہ جس کے رنگ میں مل کر ہوئے زخم جگر غائب

کمی پہلے ہی تھی شایان اہل ظرف کی لیکن
نظر سے ہو رہے ہیں آج کل اہل نظر غائب