EN हिंदी
سفر ہے ختم مگر بے گھری نہ جائے گی | شیح شیری
safar hai KHatm magar be-ghari na jaegi

غزل

سفر ہے ختم مگر بے گھری نہ جائے گی

ولی عالم شاہین

;

سفر ہے ختم مگر بے گھری نہ جائے گی
ہمارے گھر سے یہ پیغمبری نہ جائے گی

نظر گنوا بھی چکے تجھ کو دیکھنے والے
افق افق تری جلوہ‌ گری نہ جائے گی

میں اپنے خواب تراشوں انہیں بکھیروں بھی
مری سرشت سے یہ آذری نہ جائے گی

حسیں ہے شیشہ و آہن کا امتزاج مگر
تری سیاست آہن گری نہ جائے گی

میں سب کے زخم چنوں پھر انہیں زبانیں دوں
بلا سے دل کی مرے ابتری نہ جائے گی

اگرچہ سرد بہت ہے دیار قطب شمال
سخن وروں کی سخن پروری نہ جائے گی