سفر بھی کوئی نہ ہو رہ گزر بھی کوئی نہ ہو
ہمارے بعد خراب اس قدر بھی کوئی نہ ہو
سب اس ہجوم میں گم ہونا چاہتے ہیں جہاں
پتا ٹھکانہ بھی خیر و خبر بھی کوئی نہ ہو
خدا وہ دن نہ دکھائے کہ ان دیاروں میں
سب آنکھیں رکھتے ہوں اور دیدہ ور بھی کوئی نہ ہو
زمانہ کاش نہ آئے کہ پھول پھل کے بغیر
فقط گھروں کا ہو جنگل شجر بھی کوئی نہ ہو
زمیں نہ بین کرے مہربان ماں کی طرح
کرو کچھ ایسا کسی کا ضرر بھی کوئی نہ ہو
پھر اس جہان میں کیسے رہیں کہاں جائیں
وطن بھی کوئی نہ ہو اور گھر بھی کوئی نہ ہو
ہمیں زمیں پہ اتارا گیا زوال کے وقت
یہی بجا ہے تو پھر نوحہ گر بھی کوئی نہ ہو
غزل
سفر بھی کوئی نہ ہو رہ گزر بھی کوئی نہ ہو
اسعد بدایونی