EN हिंदी
سفر بھی دور کا ہے راہ آشنا بھی ہیں | شیح شیری
safar bhi dur ka hai rah aashna bhi hain

غزل

سفر بھی دور کا ہے راہ آشنا بھی ہیں

مظفر وارثی

;

سفر بھی دور کا ہے راہ آشنا بھی ہیں
چلا ادھر کو ہوں جس سمت کی ہوا بھی نہیں

گزر رہا ہوں قدم رکھ کے اپنی آنکھوں پر
گئے دنوں کی طرف مڑ کے دیکھتا بھی نہیں

مرا وجود مری زندگی کی حد نہ سہی
کبھی جو طے ہی نہ ہو میں وہ فاصلہ بھی نہیں

فضا میں پھیل چلی میری بات کی خوشبو
ابھی تو میں نے ہواؤں سے کچھ کہا بھی نہیں

سمجھ رہا ہوں مظفرؔ اسے شریک سفر
جو میرے ساتھ قدم دو قدم چلا بھی نہیں