صدمے جھیلوں جان پہ کھیلوں اس سے مجھے انکار نہیں ہے
لیکن ترے پاس وفا کا کوئی بھی معیار نہیں ہے
یہ بھی کوئی بات ہے آخر دور ہی دور رہیں متوالے
ہرجائی ہے چاند کا جوبن یا پنچھی کو پیار نہیں ہے
ایک ذرا سا دل ہے جس کو توڑ کے بھی تم جا سکتے ہو
یہ سونے کا طوق نہیں یہ چاندی کی دیوار نہیں ہے
ملاحوں نے ساحل ساحل موجوں کی توہین تو کر دی
لیکن پھر بھی کوئی بھنور تک جانے کو تیار نہیں ہے
پھر بھی وہی سیلاب حوادث جانے دو اے ساحل والو
یا اس بار سفینہ ڈوبا یا اس کے منجدھار نہیں ہے
قید قفس کے بعد کرے گا قید گلستاں کون گوارا
اب بھی وہی زنجیریں ہیں گو پہلی سی جھنکار نہیں ہے
غزل
صدمے جھیلوں جان پہ کھیلوں اس سے مجھے انکار نہیں ہے
قتیل شفائی