صدیوں تمہاری یاد میں شمعیں جلائیں گے
پل بھر کے بعد پھر بھی تمہیں بھول جائیں گے
تعمیر مدعا طلب ذوق ہو گئی
بنیاد درد ہوگی تو دیوار اٹھائیں گے
اب کاہش جنوں کا کوئی سلسلہ نہیں
ہاں بے دلی سے دست دعا بھی اٹھائیں گے
اے کاروان تیز قدم ماندگاں کو دیکھ
آنکھوں میں کیا غبار سر رہ سجائیں گے
لکھیں گے قہقہوں سے بس اک داستان دل
اس پر حدیث درد کا عنواں جمائیں گے
یوں ہی سہی جو گرمئ بازار ہم سے ہے
ہم بیچ کر ضمیر نظر مسکرائیں گے
یا چاک دل کو چاک گریباں بنا سکیں
یا دختران مصر سے دامن بچائیں گے
کیا رخش عمر حیلۂ مرگ آشنا نہیں
اٹھے گی موج ریگ رواں ڈوب جائیں گے
حرف آشنا نہ ہوگی کوئی موج درد دل
سینے پہ رکھ کے ہاتھ مگر بیٹھ جائیں گے

غزل
صدیوں تمہاری یاد میں شمعیں جلائیں گے
شفقت تنویر مرزا