صدیوں کا کرب لمحوں کے دل میں بسا دیا
پل بھر کی زندگی کو دوامی بنا دیا
دیوار میں وہ چن ہی رہا تھا مجھے مگر
کم بخت ایک سنگ کہیں مسکرا دیا
جب اور کوئی مد مقابل نہیں رہا
میری انا نے مجھ کو مجھی سے لڑا دیا
مجھ سے نہ پوچھ کل کے محقق سے پوچھنا
شعلوں کے لمس نے مجھے کیوں یخ بنا دیا
یادوں کے شہر میں بھی نہ حیرتؔ سکوں ملا
حالات نے مزاج کچھ ایسا بنا دیا
غزل
صدیوں کا کرب لمحوں کے دل میں بسا دیا
بلراج حیات