EN हिंदी
صدا فریاد کی آئے کہیں سے | شیح شیری
sada fariyaad ki aae kahin se

غزل

صدا فریاد کی آئے کہیں سے

اقبال سہیل

;

صدا فریاد کی آئے کہیں سے
وہ ظالم بد گماں ہوگا ہمیں سے

خدا سمجھے بت سحر آفریں سے
گریباں کو لڑایا آستیں سے

چمن ہے شعلۂ گل سے چراغاں
بہار آئی نوائے آتشیں سے

خرد ہے اب بھی جس کے حل سے عاجز
وہ نکتے حل کیے ہم نے یقیں سے

سلامت وسعت آباد محبت
بہت آگے ہیں ہم دنیا و دیں سے

معاذ اللہ جلال اس آستاں کا
ٹپک پڑتے ہیں سجدے خود جبیں سے