صدائے قیس شوق دشت پیمائی نم دانم
نہ جانے کون سی کل کھینچ کے لائی نمی دانم
فقیروں کو مرے شاہانا خلعت سے نوازا ہے
عقیدت ہے یا رنگ ذات آرائی نمی دانم
کھڑے ہیں راستے میں ہاتھ باندھے پیڑ صف بستہ
ہوا کیوں چاندنی کے دوش پر آئی نمی دانم
وجود خاک سے لپٹے رہے پہلو کے انگارے
بدن کی آگ جانے کیسے بجھ پائی نمی دانم
درون سوز رندانہ درون آہ مستانہ
بگوش یار تک کیسی صدا آئی نمی دانم

غزل
صدائے قیس شوق دشت پیمائی نم دانم
آصف انجم