صدائے مژدۂ لا تقنطوا کے دھارے پر
چراغ جلتے رہے آس کے مینارے پر
عجیب اسم تھا لب پر کہ پاؤں اٹھتے ہی
میں خود کو دیکھتا تھا عرش کے کنارے پر
عجیب عمر تھی صدیوں سے رہن رکھی ہوئی
عجیب سانس تھی چلتی تھی بس اشارے پر
وہ ایک آنکھ کسی خواب کی تمنا میں
وہ ایک خواب کہ رکھا ہوا شرارے پر
اسی زمین کی جانب پلٹ کے آنا تھا
اتر بھی جاتے اگر ہم کسی ستارے پر
متاع حرف کہیں بے اثر نہیں شہبازؔ
یہ کائنات بھی ہے کن کے استعارے پر
غزل
صدائے مژدۂ لا تقنطوا کے دھارے پر
شہباز خواجہ