صد سوغات سکوں فردوس ستمبر آ
اے رنگوں کے موسم منظر منظر آ
آدھے ادھورے لمس نہ میرے ہاتھ پہ رکھ
کبھی سپرد بدن سا مجھے میسر آ
کب تلک پھیلائے گا دھند مرے خوں میں
جھوٹی سچی نوا میں ڈھل کر لب پر آ
مجھے پتہ تھا اک دن لوٹ کے آئے گا تو
رکا ہوا دہلیز پہ کیوں ہے اندر آ
اے پیہم پرواز پرندے دم لے لے
نہیں اترتا آنگن میں تو چھت پر آ
اس نے عجب کچھ پیار سے اب کے لکھا بانیؔ
بہت دنوں پھر گھوم لیا واپس گھر آ

غزل
صد سوغات سکوں فردوس ستمبر آ
راجیندر منچندا بانی