صد حیف کہ کمزور ہے چشمان بڑھاپا
سستی ستی جنبش میں ہے دندان بڑھاپا
از بسکہ ہوا ہے گا گزر فصل خزاں کا
رونق نہیں رکھتا ہے گلستان بڑھاپا
اربل کے بھنور میں گئی ہے ڈوب جوانی
جس وقت اٹھا جگ منے طوفان بڑھاپا
تسبیح و مصلا و عصا عینک و رعشہ
جوبن نے دیا بھیج یہ سامان بڑھاپا
غفلت کی روئی دور نہ کی شیشۂ دل سوں
مے خانہ میں مستاں نے سن الحان بڑھاپا
اشعار ہیں تعریف سپیدی کی سراپا
اس واسطے رنگیں نہیں دیوان بڑھاپا
جوبن کے بھون میں لگی ہے آتش گرمی
چھڑکے ہے طہور آب زمستان بڑھاپا
گردوں کی طرح خم ہوا قد قوس قزح کا
کھینچا ہے مگر ضعف سوں کیوان بڑھاپا
امراض کی افواج کا یورش ہے بدن پر
اس ملک میں مغلوب ہے سلطان بڑھاپا
اب بلبل جاں تنگ ہوا تن کے قفس میں
پرواز کرے دیکھ کے زندان بڑھاپا
لذت نہیں دیتا ہے دہن بیچ کسو کے
اے مبتلاؔ کیا سرد ہے گا نان بڑھاپا

غزل
صد حیف کہ کمزور ہے چشمان بڑھاپا
عبید اللہ خاں مبتلا