سچ تو یہ ہے بے جگہ ربط ان دنوں پیدا کیا
سوچ ہے ہر دم یہی ہم کو کہ ہم نے کیا کیا
وہ گیا اٹھ کر جدھر کو میں ادھر حیران سا
اس کے جانے پر بھی کتنی دیر تک دیکھا کیا
میری اور اس شوخ کی صاحب سلامت جو ہوئی
صبر و طاقت نے کہا لو ہم نے تو مجرا کیا
سیر گل کرتا تھا وہ اور آہ بیتابی سے میں
ہر طرف گلشن میں جوں آب رواں دوڑا کیا
جب تلک کرتے رہے مذکورہ اس کا مجھ سے لوگ
جی میں کچھ سوچا کیا میں اور دل دھڑکا کیا
درد دل کہنا مرا شاید کہ اس نے سن لیا
ورنہ کیوں مجھ کو دھراتا ہے بھلا اچھا کیا
دم بہ دم حسرت سے دیکھوں کیوں نہ سوئے چرخ میں
اس نے اوروں کا کیا اس کو ہمیں جس کا کیا
دل ملے پر بھی ملاپ ایسی جگہ ہوتے رہے
جو ادھر تڑپا کیے ہم وہ ادھر تڑپا کیا
مل گئے تھے ایک بار اس کے جو میرے لب سے لب
عمر بھر ہونٹوں پہ اپنے میں زباں پھیرا کیا
بس کہ ہے وہ شہرۂ آفاق اس کے واسطے
یہ دل دیوانہ کس کس شخص سے جھگڑا کیا
سوزش دل کیا کہوں میں جب تلک جیتا رہا
ایک انگارا سا پہلو میں مرے دہکا کیا
عشق بازی میں کہا جرأتؔ کو سب نے دیکھ کر
یہ عزیز اپنی ہمیشہ جان پر کھیلا کیا
غزل
سچ تو یہ ہے بے جگہ ربط ان دنوں پیدا کیا
جرأت قلندر بخش