EN हिंदी
سچ کہاں کہتا ہے جانے والا | شیح شیری
sach kahan kahta hai jaane wala

غزل

سچ کہاں کہتا ہے جانے والا

محمد علوی

;

سچ کہاں کہتا ہے جانے والا
خوب پچھتائے گا آنے والا

رات اور دن کا تسلسل کیا ہے
ایک چکر ہے تھکانے والا

مطمئن ہے وہ بنا کر دنیا
کون ہوتا ہوں میں ڈھانے والا

صبح سے کھود رہا ہوں گھر کو
خواب دیکھا ہے خزانے والا

تھک گیا تھا تو ذرا رک جاتا
میری تصویر بنانے والا

دل میں اس درجہ خموشی کیوں ہے
کیا ہوا شور مچانے والا

شرم سے ڈوب مرے گا علویؔ
خوش کہاں ہوگا ستانے والا