سچ ہے یا پھر مغالطہ ہے مجھے
کوئی آواز دے رہا ہے مجھے
ایک امید جاگ اٹھتی ہے
آسماں جب بھی دیکھتا ہے مجھے
چھین لیتا ہے میرے سارے گہر
جب سمندر کھنگالتا ہے مجھے
یہ مراسم بہت پرانے ہیں
دشت صدیوں سے جانتا ہے مجھے
میری جانب بھی آ ذرا فرصت
اپنے بارے میں سوچنا ہے مجھے

غزل
سچ ہے یا پھر مغالطہ ہے مجھے
بلوان سنگھ آذر