سچ ہے ان کو مجھ سے کیا اور میرے افسانے سے کیا
کر دیا دیوانہ تو اب کام دیوانے سے کیا
عشق کا عالم جدا ہے حسن کی دنیا جدا
مجھ کو آبادی سے کیا اور تم کو ویرانے سے کیا
میری حیرت اس طرف ہے تیری غفلت اس طرف
دیکھیے دیوانہ اب کہتا ہے دیوانے سے کیا
شمع کی لو ہے تو اس کا رخ بھی ہے سوئے فلک
روشنی اڑ جائے گی میرے سیہ خانے سے کیا
پھر حرم میں ہو رہا ہے امتحان اہل دل
سجدہ ہائے معصیت لے آؤں بت خانے سے کیا
جس طرح گزری ہے اب تک اب بھی گزرے گی یوں ہی
ہم نہیں بدلے تو دنیا کے بدل جانے سے کیا
مے کدہ سے خم میں آئی خم سے شیشہ میں ڈھلی
مے مرے لب تک نہ آ جائے گی پیمانے سے کیا
عالم ہستی میں کیوں لائی ہے اے عمر رواں
ایسے ویرانے کی رونق ایسے دیوانے سے کیا
دین ادھر دنیا ادھر اور بیچ میں واعظ کا وعظ
پھیر لیں شوکتؔ نظر ہم اپنی پیمانے سے کیا
غزل
سچ ہے ان کو مجھ سے کیا اور میرے افسانے سے کیا
شوکت تھانوی