EN हिंदी
سچ ہے غم فراق میں ہم رو نہیں سکے | شیح شیری
sach hai gham-e-firaq mein hum ro nahin sake

غزل

سچ ہے غم فراق میں ہم رو نہیں سکے

خلیل الرحمٰن راز

;

سچ ہے غم فراق میں ہم رو نہیں سکے
وہ بھی تمام رات مگر سو نہیں سکے

بے فائدہ ہے چاہنا اصنام سے وفا
یہ سنگ دل کسی کے کبھی ہو نہیں سکے

پتھر کے لوگ ہیں جہاں شیشے کے بام و در
ہم اس زمیں میں درد وفا بو نہیں سکے

سینے میں ایک داغ لگا اور عمر بھر
دھوتے رہے وہ داغ مگر دھو نہیں سکے

آداب پردہ داریٔ ضبط فغاں نہ پوچھ
طوفان دل میں اٹھتے رہے رو نہیں سکے

رنگینیوں کے عہد میں خوشیوں کے دور میں
چاہا غموں کو کھونا مگر کھو نہیں سکے

تسخیر ماہتاب مکمل تو ہو گئی
دامن میں اس کے ایک بھی پل سو نہیں سکے

عیاریٔ سیاست احباب دیکھیے
چاہا کسی کے ہو کے رہیں ہو نہیں سکے