سچ بول کے بچنے کی روایت نہیں کوئی
اور مجھ کو شہادت کی ضرورت نہیں کوئی
میں رزق کی آواز پہ لبیک کہوں گا
ہاں مجھ کو زمینوں سے محبت نہیں کوئی
میرے بھی کئی خواب تھے میرے بھی کئی عزم
حالات سے انکار کی صورت نہیں کوئی
میں جس کے لیے سارے زمانے سے خفا تھا
اب یوں ہے کہ اس نام سے نسبت نہیں کوئی
لہجہ ہے مرا تلخ مرے وار ہیں بھرپور
لیکن میرے سینے میں کدورت نہیں کوئی
غزل
سچ بول کے بچنے کی روایت نہیں کوئی
اسعد بدایونی