EN हिंदी
صبر کر صبر دل زار یہ وحشت کیا ہے | شیح شیری
sabr kar sabr dil-e-zar ye wahshat kya hai

غزل

صبر کر صبر دل زار یہ وحشت کیا ہے

جمیلہ خدا بخش

;

صبر کر صبر دل زار یہ وحشت کیا ہے
دشت پر خار میں جانے کی ضرورت کیا ہے

اک تحیر میں پڑا ہوں نہیں ملتا ہے پتہ
چشم بے خواب میں یہ صورت حسرت کیا ہے

دل میں بیٹھے ہیں تو پھر منہ کا چھپانا کیسا
اے بت ہوش ربا آپ کی عادت کیا ہے

لوریاں دے گی قضا چین سے سو جائیں گے
تیرے بیمار کو مرنے کی ضرورت کیا ہے

نیک و بد جب تری مرضی پہ ہوئے ہیں موقوف
بخت کہتے ہیں کسے اور یہ قسمت کیا ہے

دم آخر ہے مرا تم سر بالیں آؤ
ایک ساعت کے ٹھہرنے میں قباحت کیا ہے

روز عشرت میں سمجھتی ہوں جمیلہؔ اس کو
لوگ کس واسطے ڈرتے ہیں قیامت کیا ہے