سبھوں سے یوں تو ہے دل آپ کا خوش
اگر پوچھو تو ہے ہم سے ہی نا خوش
خوشی تیری ہی ہے منظور ہم کو
بلا سے گر کوئی نا خوش ہو یا خوش
رواق چشم و قصر دل کیا سیر
نہ کی پر آپ نے یاں کوئی جا خوش
جفا کر یا وفا مختار ہے تو
مجھے یکساں ہے کیا نا خوش ہے کیا خوش
نہیں اس میں تو غیر از جور لیکن
مجھے کیا جانے کیا آئی ادا خوش
کیا ہے گرچہ نا خوش تو نے ہم کو
رکھے پر اے بتاں تم کو خدا خوش
خوشی ہے سب کو روز عید کی یاں
ہوئے ہیں مل کے باہم آشنا خوش
بھلا کچھ بھی مناسب ہے مری جاں
کہ ہو تو آج کے دن مجھ سے نا خوش
بتا ایسی کوئی تدبیر بیدارؔ
کہ جس سے ہووے میرا دل ربا خوش
غزل
سبھوں سے یوں تو ہے دل آپ کا خوش
میر محمدی بیدار