EN हिंदी
سبھی تارے سبھی جگنو میرے | شیح شیری
sabhi tare sabhi jugnu mere

غزل

سبھی تارے سبھی جگنو میرے

محمد علی موج

;

سبھی تارے سبھی جگنو میرے
اب اور آنچل ہے اور آنسو میرے

کیا حکایات شب و روز کہوں
ذہن میں ہیں رخ و گیسو میرے

قید کر لے کوئی آئینوں میں
عکس بکھرے ہوئے ہر سو میرے

کاش ایسا ہو کہ تتلی بن کر
ہاتھ آ جائے وہ خوشبو میرے

سب کی آنکھوں میں اڑانیں ہیں مری
کس نے دیکھے پر و بازو میرے

ایک معصوم سا چہرہ اے موجؔ
کر گیا ذہن پہ جادو میرے