سبھی تارے سبھی جگنو میرے
اب اور آنچل ہے اور آنسو میرے
کیا حکایات شب و روز کہوں
ذہن میں ہیں رخ و گیسو میرے
قید کر لے کوئی آئینوں میں
عکس بکھرے ہوئے ہر سو میرے
کاش ایسا ہو کہ تتلی بن کر
ہاتھ آ جائے وہ خوشبو میرے
سب کی آنکھوں میں اڑانیں ہیں مری
کس نے دیکھے پر و بازو میرے
ایک معصوم سا چہرہ اے موجؔ
کر گیا ذہن پہ جادو میرے

غزل
سبھی تارے سبھی جگنو میرے
محمد علی موج