EN हिंदी
سبھی کا دھوپ سے بچنے کو سر نہیں ہوتا | شیح شیری
sabhi ka dhup se bachne ko sar nahin hota

غزل

سبھی کا دھوپ سے بچنے کو سر نہیں ہوتا

وسیم بریلوی

;

سبھی کا دھوپ سے بچنے کو سر نہیں ہوتا
ہر آدمی کے مقدر میں گھر نہیں ہوتا

کبھی لہو سے بھی تاریخ لکھنی پڑتی ہے
ہر ایک معرکہ باتوں سے سر نہیں ہوتا

میں اس کی آنکھ کا آنسو نہ بن سکا ورنہ
مجھے بھی خاک میں ملنے کا ڈر نہیں ہوتا

مجھے تلاش کروگے تو پھر نہ پاؤگے
میں اک صدا ہوں صداؤں کا گھر نہیں ہوتا

ہماری آنکھ کے آنسو کی اپنی دنیا ہے
کسی فقیر کو شاہوں کا ڈر نہیں ہوتا

میں اس مکان میں رہتا ہوں اور زندہ ہوں
وسیمؔ جس میں ہوا کا گزر نہیں ہوتا