سبب تو کچھ بھی نہیں اور اداس رہتا ہے
یہ کیسا درد ہے جو دل کے پاس رہتا ہے
مجھے پتا نہیں اس کا مگر یہ سنتا ہوں
وہ ان دنوں مرے گھر کے ہی پاس رہتا ہے
مری کتاب کے اوراق سب تمہارے ہیں
جہاں سے دیکھو ترا اقتباس رہتا ہے
میں کاٹتا ہوں ہر ایک لمحہ کربلا کی طرح
لبوں پہ پیاس تو دل میں ہراس رہتا ہے
میں کل تلک جسے اک آنکھ بھی یہ بھاتا تھا
اسی کے دل میں مرا اب نواس رہتا ہے
نسیمؔ نام کے اس آدمی سے ملنا تم
نہ جانے ہر گھڑی کیوں بد حواس رہتا ہے

غزل
سبب تو کچھ بھی نہیں اور اداس رہتا ہے
نسیم احمد نسیم