صبا کا راز بھی پھولوں کے درمیان کھلا
اس ایک در کے توسط سے گلستان کھلا
قفس میں قید پرندوں کے پر نہیں کھلتے
نظر کے سامنے لیکن ہے آسمان کھلا
ابھی تو لفظ بھی آواز کے بھنور میں ہیں
ابھی سے کیسے معانی کا بادبان کھلا
فلک پہ گھور گھٹائیں سراب ہونے لگیں
سروں پہ دھوپ کا جس وقت سائبان کھلا
تمام شہر کی تنہائیاں مکمل ہیں
کوئی بھی ہاشمیؔ لگتا نہیں مکان کھلا

غزل
صبا کا راز بھی پھولوں کے درمیان کھلا
مسرت ہاشمی