EN हिंदी
سب ٹھاٹھ یہ اک بوند سے قدرت کی بنا ہے | شیح شیری
sab ThaTh ye ek bund se qudrat ki bana hai

غزل

سب ٹھاٹھ یہ اک بوند سے قدرت کی بنا ہے

نظیر اکبرآبادی

;

سب ٹھاٹھ یہ اک بوند سے قدرت کی بنا ہے
یاں اور کسی کی نہ منی ہے نہ منا ہے

بالفرض اگر ہم ہوے حوا کے شکم سے
آدم کے تئیں دیکھیے وہ کس کا جنا ہے

یاں لوگ دولہن دولہا کے قصے میں پھنسے ہیں
واں اور بنت ہے نہ بنی ہے نہ بنا ہے

حکمت کا الٹ پھیر نہیں جن کی نظر میں
وہ کہتے ہیں غافل یہ بقا ہے یہ فنا ہے

لے عرش سے تا فرش جو روشن ہے طلسمات
یہ نور سب اس نور کی چھلنی سے چھنا ہے

ہم کچے سے کچا اسے سمجھے ہیں وگرنہ
اس دیگ کے چاول میں کنی ہے نہ کنا ہے

ملنا بھی غرض کا ہے لڑائی بھی غرض کی
نہیں اور کسی سے کوئی روٹھا نہ منا ہے

حاجت نہ بر آئی تو وہیں کرنے لگے ہجو
اور ہو گیا مطلب تو ہیں وصف و ثنا ہے

یابس کہیں مرطوب کہیں گرم کہیں سرد
مصری میں کہیں زہر ہلاہل میں سنا ہے

ایک اس کی دوا سمجھی نہیں جاتی نظیرؔ آہ
کچھ زور ہی معجون کا نسخہ یہ بنا ہے