سب سے پہلے تو عرض مطلع ہے
یوں سمجھئے کہ اس کا جلوہ ہے
آئینہ جھوٹ بولنے کے لیے
سو بہانے تلاش کرتا ہے
زندہ رکھے گی شاعری مجھ کو
کون کہتا ہے اس میں گھاٹا ہے
دل شاعر بھی ہے پھسڈی ہی
حسن کے پیچھے پیچھے رہتا ہے
سچ زمینی کہ آسمانی ہو
وہ بدن زندہ استعارہ ہے
کوئی اچھا سا شعر ہو جائے
پھر تو برسوں خموش رہنا ہے
اپنے بارے میں سوچنے کے لیے
دور سے چاند کا اشارہ ہے
چھو کے ملبوس یار ہے گزری
موڈ بگڑا ہوا صبا کا ہے
غزل
سب سے پہلے تو عرض مطلع ہے
شمیم قاسمی