سب پہ تو مہربان ہے پیارے
کچھ ہمارا بھی دھیان ہے پیارے
آ کہ تجھ بن بہت دنوں سے یہ دل
ایک سونا مکان ہے پیارے
تو جہاں ناز سے قدم رکھ دے
وہ زمین آسمان ہے پیارے
مختصر ہے یہ شوق کی روداد
ہر نفس داستان ہے پیارے
اپنے جی میں ذرا تو کر انصاف
کب سے نامہربان ہے پیارے
صبر ٹوٹے ہوئے دلوں کا نہ لے
تو یوں ہی دھان پان ہے پیارے
ہم سے جو ہو سکا سو کر گزرے
اب ترا امتحان ہے پیارے
مجھ میں تجھ میں تو کوئی فرق نہیں
عشق کیوں درمیان ہے پیارے
کیا کہے حال دل غریب جگرؔ
ٹوٹی پھوٹی زبان ہے پیارے
غزل
سب پہ تو مہربان ہے پیارے
جگر مراد آبادی