سب نعمتیں ہیں شہر میں انسان ہی نہیں
کچھ یوں کہ جیسے یہ کوئی نقصان ہی نہیں
اک آیت وجود ہوں مٹی کے ڈھیر میں
میرے نزول کی تو کوئی شان ہی نہیں
کابینۂ وجود کا میں بھی ہوں اک وزیر
ایسا کہ میرا کوئی قلم دان ہی نہیں
یہ جنگ اب کہاں ہو بدن میں کہ روح میں
گویا کہ عشق کا کوئی میدان ہی نہیں
دست جنوں بھی تنگ ہوا دشت عشق میں
اب چاک کیا کروں کہ گریبان ہی نہیں
حیراں ہوں اپنے قتل کا الزام کس کو دوں
توحید میں تو شرک کا امکان ہی نہیں
احساسؔ نے بتوں میں خدا کو کیا شریک
اس شرک کے بغیر تو ایمان ہی نہیں
غزل
سب نعمتیں ہیں شہر میں انسان ہی نہیں
فرحت احساس