سب کچھ سر بازار جہاں چھوڑ گیا ہے
یہ کون کھلی اپنی دکاں چھوڑ گیا ہے
جاتے ہی کسی کے نہ وہ نغمہ نہ اجالا
خاموش چراغوں کا دھواں چھوڑ گیا ہے
وحشی تو گیا لے کے وہ زنجیر و گریباں
اک نوحہ کناں خالی مکاں چھوڑ گیا ہے
سو قافلے اس راہ سے آئے بھی گئے بھی
اب تک میں وہیں ہوں وہ جہاں چھوڑ گیا ہے
بھیجا ہے یہ کس نے ورق سادہ مرے نام
کیا کیا گلے بے لفظ و بیاں چھوڑ گیا ہے
تا دور جہاں اب ہے سر راہ چراغاں
وہ نقش قدم اپنے وہاں چھوڑ گیا ہے
اٹھ کر تری محفل سے گیا ہے جو مغنی
نغمات کے پردے میں فغاں چھوڑ گیا ہے
بے سمت سا اک آج کہ ماضی ہے نہ فردا
یہ وقت کا سیلاب کہاں چھوڑ گیا ہے
پہلو میں کہاں دل جو سنبھالے کوئی نوشادؔ
اک داغ کی صورت میں نشاں چھوڑ گیا ہے
غزل
سب کچھ سر بازار جہاں چھوڑ گیا ہے
نوشاد علی