سب کچھ ہے عیاں پھر بھی ہے پردہ مرے آگے
دنیا ہے تری ایک کرشمہ مرے آگے
میں پیاس کی شدت کا فلک چوم رہی ہوں
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
میں خود کو لکیروں میں کہیں ڈھونڈ ہی لیتی
مٹھی وہ کبھی کھول تو دیتا مرے آگے
جس سمت بھی دیکھوں ہیں سرابوں کی صلیبیں
پھیلا ہے عجب ریت کا صحرا مرے آگے
تنقید مری ان کے گناہوں پہ نہیں تھی
آئینۂ اعمال رکھا تھا مرے آگے
ناکردہ گناہوں کی سزا پائی ہے نصرتؔ
انصاف ہوا شہر میں رسوا مرے آگے
غزل
سب کچھ ہے عیاں پھر بھی ہے پردہ مرے آگے
نصرت مہدی