EN हिंदी
سب کو یہ فکر ہاتھ سے اب ایک پل نہ جائے | شیح شیری
sab ko ye fikr hath se ab ek pal na jae

غزل

سب کو یہ فکر ہاتھ سے اب ایک پل نہ جائے

ندیم فاضلی

;

سب کو یہ فکر ہاتھ سے اب ایک پل نہ جائے
دنیا حدود وقت سے آگے نکل نہ جائے

سب کو فریب دے مگر اتنا رہے خیال
بہروپ بھرتے بھرتے یہ چہرہ بدل نہ جائے

غم سے نباہ کیجیے اس تمکنت کے ساتھ
دل کا شرارہ آنکھ کی حد تک مچل نہ جائے

ذوق نظر دیا ہے تو ظرف نظر بھی دے
ڈر ہے مجھے شعور کی وسعت نگل نہ جائے

سنتا ہوں آپ میری عیادت کو آئیں گے
کرتا ہوں سو جتن کہ طبیعت سنبھل نہ جائے

وہ درد ہے کہ پھٹ نہ پڑے دل کہیں ندیمؔ
وہ خوف ہے کہ ریڑھ کی ہڈی پگھل نہ جائے