سب کو یہ فکر ہاتھ سے اب ایک پل نہ جائے
دنیا حدود وقت سے آگے نکل نہ جائے
سب کو فریب دے مگر اتنا رہے خیال
بہروپ بھرتے بھرتے یہ چہرہ بدل نہ جائے
غم سے نباہ کیجیے اس تمکنت کے ساتھ
دل کا شرارہ آنکھ کی حد تک مچل نہ جائے
ذوق نظر دیا ہے تو ظرف نظر بھی دے
ڈر ہے مجھے شعور کی وسعت نگل نہ جائے
سنتا ہوں آپ میری عیادت کو آئیں گے
کرتا ہوں سو جتن کہ طبیعت سنبھل نہ جائے
وہ درد ہے کہ پھٹ نہ پڑے دل کہیں ندیمؔ
وہ خوف ہے کہ ریڑھ کی ہڈی پگھل نہ جائے

غزل
سب کو یہ فکر ہاتھ سے اب ایک پل نہ جائے
ندیم فاضلی