سب کو مٹ جانا ہے تقویم فنا کیا دیکھوں
زندگی کیوں نہ ترا حسن دل آرا دیکھوں
دل پر خوں کو تو مل جائے فراغ عشرت
کب تلک درد سے اس کا میں تڑپتا دیکھوں
میں کہ ہوں کشتۂ نومیدی جاوید کبھی
اپنی موہوم امیدوں کا بر آنا دیکھوں
زندگی کوئی معانی کوئی مطلب تو ہو
یہ نہ ہو قافلۂ جاں کا گزرنا دیکھوں
صبح سے شام تلک دھوپ ہی اوڑھی میں نے
کوئی دم اب تو میں بادل کا برسنا دیکھوں
یوں تو تابانیٔ دنیا پہ نظر رکتی نہیں
یہ نہ ہو چہرۂ انساں کو میں اترا دیکھوں
غرق ہو جاؤں گا اپنے میں وہ دریا میں ہوں
کب تلک راہی سمندر کا اشارا دیکھوں
غزل
سب کو مٹ جانا ہے تقویم فنا کیا دیکھوں
سید نواب حیدر نقوی راہی