سب کو گمان بھی کہ میں آگاہ راز تھا
کس درجہ کامیاب فریب مجاز تھا
مثل مہہ دو ہفتہ وہی سرفراز تھا
جس کی جبین شوق پہ داغ نیاز تھا
پوچھو نہ حال کشمکش یاس و آرزو
وہ بھی عجیب مرحلۂ جانگداز تھا
جب تک حقیقتوں سے مرا دل تھا بے خبر
بیچارہ مبتلائے غم امتیاز تھا
جھونکا ہوائے سرو کا رندوں کے واسطے
خمخانۂ بہار سے حکم جواز تھا
اہل جہاں کے کفر و توہم کا کیا علاج
آئینہ کہہ رہا ہے کہ آئینہ ساز تھا
مضمر تھے میری ذات میں اسرار کائنات
میں آپ راز آپ ہی خود شرح راز تھا
آئیں پسند کیا اسے دنیا کی راحتیں
جو لذت آشنائے ستم ہائے ناز تھا
خلقت سمجھ رہی تھی جسے اضطراب دل
پنہاں اسی میں ہستی عاشق کا راز تھا
اچھا ہوا ہمیشہ کو چپ ہو گیا رواںؔ
اک اک نفس غریب کا ہستی گداز تھا
غزل
سب کو گمان بھی کہ میں آگاہ راز تھا
جگت موہن لال رواںؔ