سب کو دل کے داغ دکھائے ایک تجھی کو دکھا نہ سکے
تیرا دامن دور نہیں تھا ہاتھ ہمیں پھیلا نہ سکے
تو اے دوست کہاں لے آیا چہرہ یہ خورشید مثال
سینے میں آباد کریں گے آنکھوں میں تو سما نہ سکے
نا تجھ سے کچھ ہم کو نسبت نا تجھ کو کچھ ہم سے کام
ہم کو یہ معلوم تھا لیکن دل کو یہ سمجھا نہ سکے
اب تجھ سے کس منہ سے کہہ دیں سات سمندر پار نہ جا
بیچ کی اک دیوار بھی ہم تو پھاند نہ پائے ڈھا نہ سکے
من پاپی کی اجڑی کھیتی سوکھی کی سوکھی ہی رہی
امڈے بادل گرجے بادل بوندیں دو برسا نہ سکے
غزل
سب کو دل کے داغ دکھائے ایک تجھی کو دکھا نہ سکے
ابن انشا