سب اک چراغ کے پروانے ہونا چاہتے ہیں
عجیب لوگ ہیں دیوانے ہونا چاہتے ہیں
نہ جانے کس لیے خوشیوں سے بھر چکے ہیں دل
مکان اب یہ عزا خانے ہونا چاہتے ہیں
وہ بستیاں کہ جہاں پھول ہیں دریچوں میں
اسی نواح میں ویرانے ہونا چاہتے ہیں
تکلفات کی نظموں کا سلسلہ ہے سوا
تعلقات اب افسانے ہونا چاہتے ہیں
جنوں کا زعم بھی رکھتے ہیں اپنے ذہن میں ہم
پڑے جو وقت تو فرزانے ہونا چاہتے ہیں
غزل
سب اک چراغ کے پروانے ہونا چاہتے ہیں
اسعد بدایونی