سب ہوت نہ ہوت سے نتھری ہوئی آسان غزل ہوں چھا کے سنو
کبھی گزرو نور سرا سے میری کبھی مجھ کو مجھ سے چرا کے سنو
مرا دل بھی کوئی پنگھٹ ہے جہاں پریاں پانی بھرتی ہیں
کوئی پیڑا نہیں کوئی شور نہیں سب پانی مرا گہرا کے سنو
دن رات زمین کی گردش پر سر تال بٹھاتے رہتے ہو
کبھی خود کو بھی حیران کرو کبھی دل کی بات سنا کے سنو
جو گردن میں اک خم سا ہے یہ کب سے ہوا معلوم نہیں
یہ شان نشان تو ملتا ہے جب سینے کی پتھرا کے سنو

غزل
سب ہوت نہ ہوت سے نتھری ہوئی آسان غزل ہوں چھا کے سنو
رؤف رضا