EN हिंदी
سب چہروں پر ایک ہی رنگ اور سب آنکھوں میں ایک ہی خواب | شیح شیری
sab chehron par ek hi rang aur sab aankhon mein ek hi KHwab

غزل

سب چہروں پر ایک ہی رنگ اور سب آنکھوں میں ایک ہی خواب

افتخار عارف

;

سب چہروں پر ایک ہی رنگ اور سب آنکھوں میں ایک ہی خواب
پھر بھی جانے بستی بستی مقتل کیوں ہے شہر گلاب

وحشت بام و در کہتی ہے اور بلائیں آئیں گی
اب جو بلائیں آئیں تو لوگو رن ہوگا بے حد و حساب

جب بھی کبھی شب خون پڑا تو اہل چمن خاموش رہے
موسم گل میں جس کو دیکھو ''میری شاخیں'' ''میرے گلاب''

ہم سے کوئی پوچھے تو بتائیں کیا کچھ ہم پر بیت گئی
کہاں کہاں گہنائے سورج کہاں کہاں ڈوبے مہتاب

آؤ شمعیں سب گل کر دو کہہ دو جانے والے جائیں
اب ہر دن پیکار کا دن ہے اب ہر دن ہے روز حساب

پیاس کی باتیں کہتے سنتے کتنے موسم آئے گئے
کوئی سبیل کوہ کنی بھی کب تک ذکر قحط آب

ہم بے در بے گھر لوگوں کی ایک دعا بس ایک دعا
مالک شہر گلاب سلامت ہم پر جو بھی آئے عذاب