EN हिंदी
سب چلے جاؤ مجھ میں تاب نہیں | شیح شیری
sab chale jao mujh mein tab nahin

غزل

سب چلے جاؤ مجھ میں تاب نہیں

جون ایلیا

;

سب چلے جاؤ مجھ میں تاب نہیں
نام کو بھی اب اضطراب نہیں

خون کر دوں ترے شباب کا میں
مجھ سا قاتل ترا شباب نہیں

اک کتاب وجود ہے تو سہی
شاید اس میں دعا کا باب نہیں

تو جو پڑھتا ہے بوعلی کی کتاب
کیا یہ عالم کوئی کتاب نہیں

اپنی منزل نہیں کوئی فریاد
رخش بھی اپنا بد رکاب نہیں

ہم کتابی سدا کے ہیں لیکن
حسب منشا کوئی کتاب نہیں

بھول جانا نہیں گناہ اسے
یاد کرنا اسے ثواب نہیں

پڑھ لیا اس کی یاد کا نسخہ
اس میں شہرت کا کوئی باب نہیں