سایہ سا اک خیال کی پہنائیوں میں تھا
ساتھی کوئی تو رات کی تنہائیوں میں تھا
ہر زخم میرے جسم کا میرا گواہ ہے
میں بھی شریک اپنے تماشائیوں میں تھا
غیروں کی تہمتوں کا حوالہ بجا مگر
میرا بھی ہاتھ کچھ مری رسوائیوں میں تھا
ٹوٹے ہوئے بدن پہ لکیروں کے جال تھے
قرنوں کا عکس عمر کی پرچھائیوں میں تھا
گرداب غم سے کون کسی کو نکالتا
ہر شخص غرق اپنی ہی گہرائیوں میں تھا
نغموں کی لے سے آگ سی دل میں اتر گئی
سر رخصتی کے سوز کا شہنائیوں میں تھا
راسخؔ تمام گاؤں کے سوکھے پڑے تھے کھیت
بارش کا زور شہر کی انگنائیوں میں تھا
غزل
سایہ سا اک خیال کی پہنائیوں میں تھا
راسخ عرفانی