سایۂ ظلم سر خلق خدا ہوتا ہے
جب بھی پرچم شب یلدا کا کھلا ہوتا ہے
جانتے بھی ہیں کہ ہے ظلم کی بالادستی
یہ بھی کہتے ہیں کہ بندوں کا خدا ہوتا ہے
رات بھر جاگنے والوں نے بتایا ہے ہمیں
رات بھر شہر کا دروازہ کھلا ہوتا ہے
وہی پرکار جفا اور وہی قرطاس وطن
دائرہ جبر کا ہر سمت کھنچا ہوتا ہے
اب تو یہ حال ہوا ہے کہ ہر اک رستے پر
راہ روکے ہوئے اک راہنما ہوتا ہے
نسبت عہد گزشتہ سے بقول غالبؔ
روز اس شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہے
سب سمجھتے ہیں منیرؔ اور کہے جاتے ہیں
کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے

غزل
سایۂ ظلم سر خلق خدا ہوتا ہے
سید منیر