ساتویں نمبر کی صورت وہ بھی پر اسرار تھا
میں صفر کی طرح سب کچھ تھا مگر بیکار تھا
ہر نفس اب تک مرے دل کی عجب حالت رہی
موت سے ڈرتا بھی تھا جینے سے بھی بیزار تھا
اک شناسا نا شناسائی تھی میرے ہر طرف
میرا گھر میرے لیے تو گھر نہ تھا بازار تھا
میری بربادی کا ضامن دوسرا کوئی نہیں
میں کہ اپنے واہموں کا آپ ذمے دار تھا
جسم ہی کیا روح تک زخموں سے چھلنی ہو گئی
سانس کا رشتہ نہ تھا چلتی ہوئی تلوار تھا
اب بھلا حاصل بھی کیا ہوگا بجز شرمندگی
کیا کہوں شادابؔ کس سے برسر پیکار تھا

غزل
ساتویں نمبر کی صورت وہ بھی پر اسرار تھا
عقیل شاداب