ساتوں رنگ کھلا نہیں پائے ہم بھی تو
موسم اس کے لا نہیں پائے ہم بھی تو
ڈوبتے کیسے برف جمی تھی دریا میں
سانسوں سے پگھلا نہیں پائے ہم بھی تو
جس کی تہمت رکھی اپنے بزرگوں پر
وہ دیوار گرا نہیں پائے ہم بھی تو
لڑکے ہم سے پوچھ رہے تھے کون ہیں آپ
برسوں گھر تک جا نہیں پائے ہم بھی تو
کس منہ سے ہم اس کو سمجھاتے افسرؔ
دل کا بوجھ اٹھا نہیں پائے ہم بھی تو

غزل
ساتوں رنگ کھلا نہیں پائے ہم بھی تو
خورشید افسر بسوانی