EN हिंदी
ساتھ الفت کے ملے تھوڑی سی رسوائی بھی | شیح شیری
sath ulfat ke mile thoDi si ruswai bhi

غزل

ساتھ الفت کے ملے تھوڑی سی رسوائی بھی

راہل جھا

;

ساتھ الفت کے ملے تھوڑی سی رسوائی بھی
وصل کے باد مجھے چاہیے تنہائی بھی

تنگ ہو میرے جنوں سے کہیں چھپ بیٹھی تھی عقل
اور اسے ڈھونڈھنے میں کھو گئی بینائی بھی

عمر جب روٹھی تو اپنا دیا سب کچھ لے چلی
زور بھی ضبط بھی رفتار بھی رعنائی بھی

میں نے چاہا تھا کہ بالکل ہی اکیلا ہو جاؤں
سو گیا غم گئی عشرت گئی تنہائی بھی