EN हिंदी
ساتھ میرے اپنے سائے کے سوا کوئی نہ تھا | شیح شیری
sath mere apne sae ke siwa koi na tha

غزل

ساتھ میرے اپنے سائے کے سوا کوئی نہ تھا

نور جہاں ثروت

;

ساتھ میرے اپنے سائے کے سوا کوئی نہ تھا
اجنبی تھے سب جہاں میں آشنا کوئی نہ تھا

سارے رشتے ریت کی دیوار تھے موسم کے پھول
بات کا سچا یہاں دل کا کھرا کوئی نہ تھا

جن کے دھوکے تھے مثالی جن کی باتیں نیشتر
صرف ہم محسن تھے ان کے دوسرا کوئی نہ تھا

زندگی کی دوڑ میں ہر شخص تھا بے آسرا
شور بے ہنگام میں نغمہ سرا کوئی نہ تھا

اک شجر ایسا بھی راہ زیست میں ثروتؔ ملا
پھول تو شاخوں پہ تھے پتا ہرا کوئی نہ تھا