EN हिंदी
ساری ترتیب زمانی مری دیکھی ہوئی ہے | شیح شیری
sari tartib-e-zamani meri dekhi hui hai

غزل

ساری ترتیب زمانی مری دیکھی ہوئی ہے

طارق نعیم

;

ساری ترتیب زمانی مری دیکھی ہوئی ہے
اس کی تشکیل پرانی مری دیکھی ہوئی ہے

ذرے ذرے کو بتاتا پھروں کیا بحر تھا میں
ریگ صحرا نے روانی مری دیکھی ہوئی ہے

یہ جو ہستی ہے کبھی خواب ہوا کرتی تھی
خواب کی نقل مکانی مری دیکھی ہوئی ہے

یوں ہی تو کنج قناعت میں نہیں آیا ہوں
خسروی شاہجہانی مری دیکھی ہوئی ہے

دل کے بازار میں کیا سود و زیاں ہوتا تھا
اس کی ارزانی گرانی مری دیکھی ہوئی ہے

اک زمانے میں تو میں لفظ ہوا کرتا تھا
تنگئی جوئے معانی مری دیکھی ہوئی ہے

تم جو سنتے ہو چراغوں کی زبانی تو سنو
شب کی ہر ایک کہانی مری دیکھی ہوئی ہے

میں ترے وصل کے گرداب میں آنے کا نہیں
اس کی ہر موج پرانی مری دیکھی ہوئی ہے